لاہور میں ایک پالتو شیر کو گولی م??رک?? ہلاک کردیا گیا۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران پالتو بگ کیٹس کو ہلاک کیے جا??ے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
پنجاب وائلڈلائف حکام کے مطابق پالتو شیر اپنے پنجرے سے نکل کر شالیمار ہاؤسنگ س??سائٹی میں داخل ہوگیا تھا ??س کی وجہ سے شہریوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔
ہاؤسنگ س??سائٹی کے سیکی??رٹ?? گارڈ نے گولی مار کر افریقن شیر کو ہلاک کردیا۔ اس واقعہ کی اطلاع ملنے پر پولیس نے وائلڈلائف حکام کو مطلع کیا افریقن شیر کو ہلاک کرنیوالے سیکی??رٹ?? گارڈ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
وائلڈلائف حکام کے مطابق مارا جا??یوالا شیر چوہدری علی عمران نامی شہری کے ڈیرے سے نکلا تھا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر وائلڈلائف لاہور ریجن ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بگ کیٹس کو ہلاک کرنے اور غیرقانونی تحویل میں رکھنے والوں کیخلاف یہ تیسرا مقدمہ درج کروایا گیا ہے۔
وائلڈلائف کیپٹووائلڈ لائف مینجمنٹ کمیٹی رولز 2023 کے تحت بگ کیٹس رکھنے کے لیے بریڈنگ فارم رجسٹرڈکروانا ضروری ہے، قانون کے مطابق ہم یہ چیک کرسکتے ہیں کہ شیر،ٹائیگر یا اس انواع کا جا??ور رکھنے والے نے وہ جا??ور کہاں سے خریدا اور اسے رکھے جا??ے کے لیے پنجروں کا سائز کیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ شیر کے مالک کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائیگی، ہماری ٹیم یہ چیک کرے گی کہ مارے جا??یوالا شیر اپنے پنجرے سے کیسے نکلا؟ ،اسے کہاں اور کس طریقے سے رکھا ??ارہا تھا۔ مارا جا??یوالا مالک نے کہاں سے خریدا تھا، اس کے پاس خریداری رسید یا لائسنس تھا ??یہ بھی چیک کریں گے۔
اس سے قبل 25 نومبر کو لاہور کے ایک نجی فارم ہاؤس سے نکل بھاگنے والے پالتو تیندوے کو بھی ایک سیکی??رٹ?? گارڈ نے گولی م??رک?? ہلاک کردیا تھا ??بکہ 11 دسمبر کو منڈی بہاؤالدین میں ایک وائلڈتیندوے کو بھی گولیاں م??رک?? ہلاک کیا گیا تھا۔
دوسری طرف جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم مشن اوئیرنس فاؤنڈیشن کے سربراہ فہد ملک کا کہنا افریقن شیر کو ہلاک کیے جا??ے کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہمارے قوانین اور رویوں نے بڑی بلیوں کی شان و شوکت کو پامال کیا ہے اور انہیں کتے سے بھی بدتر حالت میں پہنچا دیا ہے۔
انہوں نے کہاجس طرح ایسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ خدا نہ کرے کسی انسانی جا?? کا ضیاع ہو، تب ہی ہماری حکومت اور عوام جاگیں گے۔
فہد ملک نے کہا گھروں یا انسانوں کی آبادی والے علاقوں میں بڑی بلیوں اور دیگر جنگلی جا??وروں کو رکھنے پر فوری اور سخت پابندی ہونی چاہیے۔ اگر کوئی ان کو رکھنے پر اصرار کرتا ہے، تو اسے بین الاقوامی معیارات پر عمل کرتے ہوئے، انسانی آبادی سے دور ایک محفوظ سہولت قائم کرنے اور ایسا کرنے کا واضح جواز فراہم کرنے کا پابند ہونا چاہیے۔